.
اسلام آباد : احتجا جی ریلی بعد از جمعہ لال مسجد سےروانہ ہوگی جوپارلمنٹ ہاؤس تک جائیگی : ترجمان پنجاب ( نشریات ) کراچی : آج جمعہ مرکز اھلسنت ناگن چورنگی میں علامہ محمد احمد لدھیانوی صاحب حفظہ اللہ پڑھائینگے : ترجمان کراچی ( نشریات ) کراچی : قومی سلامتی کے اداروں نے تسلیم کیا کسی قسم کی دہشت گردی اور فرقہ واریت سے اہل سنت والجماعت کا کوئی تعلق نہیں : علامہ غازی اورنگزیب فاروقی ( نشریات ) کراچی : الطاف حسین بھائی اپنی صفوں سے فرقہ واریت پھیلا نے والے لیڈران کو الگ کریں یا ہمیں واضح کردیں کہ ہم آپ کوبھی اپنا مخالف ہی سمجھیں ( نشریات ) کراچی : اھلسنت والجماعت نے فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار متحدہ کو قرار د ید یا : تفصیل تازہ ترین میں ( نشریات ) کراچی : مدارس کاریکارڈ چیک کرنےوالوں امام باڑوں کی فنڈ نگ کاریکارڈ بھی چیک کرو : علامہ معاویہ اعظم ( نشریات ) کراچی : ملک میں جاری اھل سنت کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث دہشت گردوں کوایران سپورٹ کررھاھے : علامہ معاویہ اعظم ( نشریات ) پنجاب : قائد پنجاب مولانامحمد اشرف طاھرصاحب جن کوکچھ دن پھلےبلاجواز گرفتار کیا گیا تھا آج وہ رھا ھوگئے : ترجمان ( نشریات ) کراچی : صدر اہل سنت والجماعت علامہ غازی اورنگزیب فاروقی نے کراچی بم دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت واقعہ کی فوری تحقیقات کرے : ترجمان
Home » » کیاصرف میراخون ہی سستاتھا ؟

کیاصرف میراخون ہی سستاتھا ؟

Written By Unknown on Tuesday, 17 February 2015 | 13:06


اللہ رب العزت نے انسانیت کی رشدو ہدایت اور فوزوفلاح کے لئے انبیاء اور رسول بھیجے تاآں کہ آخر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا تاج پہنا کر اعلان فرمادیا “کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا” اور آپ سے بھی اعلان کروادیا “کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعدکوئی نبی نہیں” کیونکہ قیامت تک آپ ہی کی نبوت چلے گی، اس لیے اس امت کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالی نے ہر دور میں ایسی ہمہ گیر شخصیات کو پیدا فرمایا جو اس امت کی ہر میدان میں رہنمائی فرمائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے 
“علماء انبیا کے وارث ہیں” 
انہی وارثین انبیاء میں ایک شخصیت حضرت مولانا حقنواز شہید کی ہے۔ جھنگوی شہید کی شہادت کو 24 سال کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی مفارقت کا زخم بالکل تازہ ہے اور نہ جانے کب تک یہ زخم تازہ ہی رہے گا۔ان کی شخصیت اس قابل نہیں کہ بھلایا جاسکے اللہ تعالی نے اس سے تحفظ ناموس صحابہ کا جو عظیم الشان کام لیا وہ ناقابل فراموش ہے اور اس کے نقوش زندہ وجاوید ہیں اور ان نقوش کے درمیان جھنگوی شہید کا ہنستا، مسکراتا چہرہ ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے اس کام کا بیڑا ان حالات میں اٹھایا جب ملک کے اندر صحابہ کے دشمن کھلے عام صحابہ کرام پر تبرا کیا کرتے تھے، جھنگوی شہید نے ان کا راستہ جرات واستقامت سے روکا، چنانچہ اسی مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے جرات مندانہ قدم اٹھایا اور 1988 کا الیکشن لڑا یہ جھنگوی شہید کا پہلا الیکشن تھا جس میں انکو 38000 ووٹ ملے، جھنگوی شہید فرمایا کرتے تھے کہ میں ہار کر بھی جیت گیا ہوں کیوں؟ تو فرمایا کرتے تھے کہ الحمداللہ مجھے فخر ہے کہ 38 ہزار آدمیوں نے میرا مؤقف تسلیم کیا ہے، انہیں تحفظ ناموس صحابہ کے جرم میں 302 جیسے مقدمات میں الجھایا گیا، چوری کے گھناؤنے الزامات لگائے گئے لیکن اس مرد قلندر کے مشن، مؤقف اور ولولے میں ذرا بھر بھی کمی نہیں آئی کیونکہ وہ فرمایا کرتے تھے: 
مصائب سے الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے 
مجھـے نـاکـامـیوں پـہ اشـک بـرسـانـا نہیں آتـا 
جب دیکھا گیا یہ اپنے مشن سے باز نہیں آتا تو حکومت اور بعض طاقتین بھی ان سے لرزہ براندام ہونے لگیں، ان کو جیل سے الٹا لٹکا کر بے پناہ تشدد کیا گیا لیکن انہوں نے مشن (جوسوفیصد سچا تھا اور ہے) نہیں چھوڑا وہ جب بھی جیل جاتے تو باہر آکر ان کا ایمان اور زیادہ پختہ ہوجاتا کسی نے کیا خوب کہا ہے: 
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے 
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے 
ان کی یہ تڑپ تھی کہ صحابہ کرام کی عزت وناموس پر حملہ کرنے والوں کا راستہ روکا جائے حتی کہ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایک مہینہ تک مجھے پاکستان کی شاہراہوں پر تقریر کرنے دی جائیں، ایک مہینے کے بعد اپنا مؤقف لوگوں کے زہن میں نہ بٹھا دوں تو مجھے جلاوطن کردیا جائے، وہ اپنے وقت کے عظیم مجاہد اور مجدد تھے، ان پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کے پاس جیل میں صرف ایک چادر اور ایک قمیض تھی، حقنواز انہی کو پہنتا تھا اور پھر انہی کو دھوتا تھا یہ سب اس لیے برداشت کیا کہ ہمارا رشتہ صحابہ کرام کے ساتھ ایمان کا ہے کیونکہ اگر صحابہ نہ ہوتے یا صحابہ دین نہ پہنچاتے تو آج ہم مسلمان نہ ہوتے، صحابہ کا دین کو پھیلانا دلیل ہے اس بات کی کہ وہ ہمارے محسن ہیں جھنگوی شہید نے اپنے محسنین کے احسان کا بدلہ کچھ اس انداز سے دیا: 
رشـتہ نـہ ہـو قـائم جـو صـحابـہ سے وفـا کا 
پھر جینا بھی برباد ہے اور مرنا بھی اکارت 
انہوں نے صحابہ کرام کے تقدس، عزت و ناموس کو بستی بستی، قریہ قریہ اور شہر شہر عام کیا 
کبھی ہوتی مرتب جو خلوص کی تاریخ 
لکھیں گے لوگ صفحہ اول پر تیرا نام 
جھنگوی شہید فرمایا کرتے تھے کہ سنی افسرو، سنی سپاہیو تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ، میرے پاؤں ریت کے ٹیلے پر نہیں پتھر کی مضبوط چٹان پر ہیں، ہمارے پاس پہاڑ سے زیادہ وزنی دلائل ہیں۔ بقول مولانا اعظم طارق شہید: انہی کی مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری ہے بات ان کی، انہی کی محفل اجاڑ رہا ہوں ہاتھ میرا ہے لات ان کی۔ آج ہم  بھی اسی حقنواز کو اپنا قائد مانتے ہیں ہم اپنے اندر ذرا جھانک کر دلوں کے دریچے کھول کر دیکھیں کہ کیا ہم جھنگوی شہید کی دی ہوئی سوچ وفکر پر چل رہے ہیں یا اس سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں کیا ہم بھی صحابہ کرام کی عزت وناموس پر جھنگوی، قاسمی، فاروقی، اعظم واظہار کی طرح ہمہ وقت قربانی کے لئے تیار ہیں یا نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو جھنگوی شہید کی روح تڑپ تڑپ کر ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے کہ صرف میرا خون ہی سستا تھا، اگر میں آپ کی طرح بیوی، بچوں کی فکر میں لگتا تو لگ سکتا تھا لیکن میں نے تو ایک راستہ اور لائن دینے کے لئے اپنی جان دی تھی کہ میرے پیچھے چلے آو یہی جنت کا راستہ ہے لیکن تم میری اس قربانی کو بھول گئے ہو تو یاد رکھو 
عطاء اللہ شاہ بخاری کا یہ فرمان، کہ اگر کل قیامت کے دن حوض کوثر پر امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ سوال کرلیا کہ اے اللہ کے رسول جب تک میں آپ کے نکاح میں نہیں آئی تھی اس وقت تک تو کسی نے میری عزت مجروح نہیں کی تھی لیکن جب میں آپ کے حرم میں آئی تو پاکستان کے اندر میرے خلاف کیچڑ اچالا جاتا تھا ۔۔۔۔۔
 پاکستانی علماء اور مسلمان اس وقت کہاں تھے ۔۔۔۔  
تو اگر رسول اللہ نے یہ سوال کرلیا تو بتاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دو گے؟ کیا یہی کہو گے کہ حالات کا تقاضہ تھا؟ نہیں نہیں بلکہ ہمیں عائشہ صدیقہ کے دوپتے کی حفاظت کی خاطر اپنے آپ کو ہمہ وقت جھنگوی شہید کے مشن کا علم اٹھائیے قدم بڑھایئے اور یہ کہہ کر میدان میں آیئے: 
ہم سے الجھو گے تو انجام قیامت ہوگا 
ہر دور میں باطل کا یہ وطیرہ رہا ہے جب دلائل کا سامنا نہیں کرسکتے تو گالی اور گولی سے پیش آتے ہیں، علمائے حق اور حق کے علمبرداروں کو راستے سے ہٹانے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں لیکن علمائے حقہ ان کے اوطھے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے بلکہ ان کے عزائم اور مشن میں اور پختگی پیدا ہوتی ہے، اس طرح یہ سازشیں جھنگوی شہید کے خلاف بھی کی گئیں لیکن ان کے مشن اور نظریے میں ذرا بھر بھی لچک نہیں آئی بالآخر اتحاد کے اس عظیم داعی، شمع رسالت کے پروانے، اصحاب رسول کے حقیقی عاشق کو، اس مرمجاہد ، مجددوقت، بخاری وقت کوراستے سے ہٹانے کی سازش کی۔ چنانچہ انہوں نے دین حق کی اس شمع کو 22 فروری 1990 بروز جمعرات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گل کردیا اور اصحاب رسول کا یہ خام امی امی کہتا ہوا منوں مٹی کے اندر میٹھی اور ابدی نیند سوگیا کیونکہ انہوں نے صحابہ کی عزت وناموس کے لئے دن رات ایک کیا تھا، آرام چھوڑ رکھا تھا، سکون چھوڑ رکھا تھا اب اس کو آرام کی ضرورت تھی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آرام سے میٹھی نیند سوگئے لیکن ہمیں یہ بتلاگئے ۔
 یــہی مــنزلیـں ہــوں گــی یــہی کــارواں ہــوں گــے
نگاہیں ہم کو ڈھونڈیں گی نہ جانے ہم کہاں ہوں گے  

Share this article :

Post a Comment