علامہ حقنواز جھنگوی شہید کی شخصیت انکی ذات اور ان کا مجاہدانہ کردار اہلسنت والجماعت میں معروف ہے، جھنگ میں 25 کلومیٹر دور چہابوہڑوالہ نامی قصبے کے ایک عام سے غریب گھرانے میں 1952 میں جنم لینے والے حقنواز نے فہم وشعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھا تو ہر طرف ظلمت کا بصیرہ تھا، ظلم وجبر کی داستانیں رقم ہورہی تھی، لوگوں کے عقائد پر رافضیت کے سائے منڈلا رہے تھے، اہل روافض نے تبراء بازی کا بازار گرم کر رکھا تھا، اسلام کے نام پر کفر کا سفر جاری تھا، غرض یہ کہ شعائر اسلام کی توہین اسلام دشمن عناصر کا معمول بن چکا تھا۔ شیراسلام علامہ حقنواز جھنگوی کو ہم سے جدا ہوئے 23 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر یوں لگتا ہے جیسے وہ آج ہی ہم سے جدا ہوئے ہوں، انکے جدائی کے غم ابھی تازہ ہے، علامہ حقنواز جھنگوی شہید کی یاد آتے ہی یہ شعر ہونٹوں پہ مچل جاتا ہے: آتی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا جب اس شیطنت کو روکنے کے لئے علامہ حقنواز جھنگوی شہید نے صدائے حق بلند کی تو کفر کے بت کدوں میں شگاف پڑگئے، حکومتی ایوانوں میں لرزا برپاء ہوگیا، عالم کفر چیخ اٹھا، شیطان بھاگنے لگا، منافقین پر رعب طاری ہوگیا، بیگانے تو خیر بیگانے تھے بعض اپنوں نے بھی یہ کہنا شروع کردیا: اے حقنواز دم کا بھروسہ نہیں ٹہر جاؤ چراغ لیکر کہاں تم ہوا کے سامنے چلے لیکن حقنواز کہاں ٹھرنے والا تھا، دل میں عشق رسول اور حب اصحاب رسول کا جزبہ مؤجزن ہو اور حقنواز ٹھر جائے یہ تو ممکنات میں سے نہ تھا، اس نے کفر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کفر کو برملا جواب دیا۔ وہ بظاہر تو کمزور سا انسان تھا مگر حقیقتا، وہ نڈر، بے باک اور جرات مند انسان تھا کہ باطل ہر وقت اس سے لرزاں رہتا تھا، اس کا دل صحابہ کی محبت سے سرشار تھا، اس نے خواب غفلت میں ڈوبے سنی کو جھنجوڑا اور انہیں ایک غیور قوم ہونے کا احساس دلایا۔ علامہ حقنواز جھنگوی شہید نے تحفظ ناموس صحابہ کے حوالے سے جو کردار ادا کیا ہے ایسا کردار ادا کرنے والے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، وہ بہت عظیم قائد تھے جو ہمیں جینے اور مرنے کا گڑ سکھایا، انکی علمی تحقیق، منفرد انداز خطابت، اخلاس وللاہیت، عاجزی وانکساری اور اپنے مؤقف پر استقامت رکھنے والے حقنواز نے تاریخ کا دہارا بدل دیا اور کفر کے اصلی چہرے کو بے نقاب کر ڈالا اور جرات و غیرت کیساتھ جینے کا ڈھنگ سکھا دیا ۔
Post a Comment